Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر15

وہ گھر آگئی تھی اسے رہ رہ کر اشعر پہ غصہ آ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کا منہ نوچ لیتی ایسا کیسے سوچ سکتا تھا وہ۔۔۔۔۔ شادی وہ بھی اشعر سے مائی فوٹ۔۔۔ کیا میں یہ بات درید کو بتاؤں۔۔۔ اس نے سوچا۔۔ نن نہیں بہت غصہ ہوں گے کہ میں بغیر ان کو بتائے اشعر بھائی کے ساتھ کیوں گئی۔۔۔۔ اس نے اپنی ہی بات کو رد کیا اس دن کا منظر سوچتے ہی اس نے آنکھھیں میچ لیں جس دن اس نے ساوی کو اشعر سے دور رہنے کا کہا تھا۔۔۔ اچھی سنائی ہیں میں نے اب بلکل بھی تنگ نہیں کریں گے اشعر بھائی اگر کیا تو درید کو بتاؤں گی ابھی بتایا تو وہ کُچھ غلط ہی نہ کر دیں اشعر بھائی کے ساتھ۔۔۔۔۔ اس نے دل میں فیصلہ کرتے کہا۔۔۔ پھر اس نے یہ بات کسی کو بھی نہیں بتائی تھی افرحہ کو بھی نہیں جس سے وہ ہر بات شئیر کرتی تھی۔۔۔۔ وہ افرحہ کے روم میں چلی گئی تاکہ اسے نیکسٹ سمیسٹر کے شیڈیول کے بارے میں بتا سکے۔۔۔۔۔


رات کا کھانا سب نے ساتھ ہی کھایا تھا اور تب ہی نادیہ بیگم نے آنے والے جمعہ کو شایان اور افرحہ کا نکاح رکھا تھا ان کی بات سن کے افرحہ شرما کے اپنے روم میں چلی گئی تھی جبکہ شایان نے اٹھ کے اپنی ماں کے ہاتھ چوم لیے تھے اور اس کی اس حرکت پہ سب ہی ہنس دئیے تھے۔۔۔ آپ دنیا کی سب سے بیسٹ ماما ہیں۔۔۔۔ وہ ان کے کندھے پہ سر رکھتے ہوئے گویا ہوا ۔۔۔۔ اچھا اور میں؟؟ مجھے بیسٹ پاپا کا ایوارڈ کب ملے گا؟؟؟ مراد صاحب نے اس کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔۔ آپ دنیا کے سب سے بیسٹ پاپا ہیں ۔۔۔ اب کی بار ساوی ان کے گلے لگتی بولی۔۔۔۔ ہیپی فیملی کا منظر مکمل تھا کسی چیز کی کمی نہ تھی۔۔۔ کاش آپ دنیا کے بیسٹ چچا چچی بھی بن جاتے تو آج مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی۔۔۔۔۔ درید جو ان کی طرف حسرت سے دیکھ رہا تھا اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ضبط سے سوچا۔۔۔ ارے میرے شہزادے تم وہاں کیوں کھڑے ہو؟؟ اپنی چچی ماں کے پاس آو ۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے اس کو گم صم بیٹھے دیکھ کر کہا جانتی تھیں کہ وہ جتنا مرضی اسے پیار دیں لیں مگر ماں باپ کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بات پہ درید چاروناچار اُٹھتا ان کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ میرا شیر۔۔۔۔۔مراد صاحب نے اسے اپنے بائیں کندھے سے لگاتے کہا یوں کہ ان کے دائیں طرف ساوی تھی اور درمیان میں وہ خود۔۔۔۔۔۔ درید کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو رہیں تھیں جبکہ دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔۔۔ چچی ماں!!!! میرے سر میں درد ہو رہا ہے میں روم۔میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ ایک ہاتھ سے اپنی کنپٹی مسلتا بولا۔۔۔ میں نے کتنی دفعہ کہا ہے بیٹا اتنا کام مت کیا کرو مگر میری سنو تب نہ۔۔۔۔ تم روم میں جاؤ میں تمہارے لیے چائے اور ٹیبلٹ بھیجتی ہوں۔۔۔۔۔ اس کے دل کی کیفیت سے بے خبر وہ اسے ڈپٹتے ہوئے بولیں۔۔ وہ ایک نظر انہیں دیکھتا اپنے روم میں چلا گیا اور جا کے بیڈ پہ لیٹ گیا پندرہ منٹ بعد اس کے روم کا دروازہ کھلا اور ساوی ہاتھ میں ٹرے تھامے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔ درید !! چائے۔۔۔۔اس نے درید کو پکارا جو بازو آنکھوں پہ رکھے لیٹا تھا مگر جواب ندارد۔۔۔۔ اس نے چائے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور جھک کر اس کا کندھا ہلایا ۔۔۔ درید چائے پی لیں ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔۔ وہ اس کے اوپر جھکی بول رہی تھی۔۔۔۔ درید نے آنکھوں سے بازو ہٹا کے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو اس کی رگوں میں خون کی طرح بستی تھی دل میں دھڑکن کی طرح دھڑکتی تھی اسے کسی اور کے ساتھ سوچنا بھی اس کے لیے سوہانِ روح تھا۔۔۔۔۔ ساوی اس کی آنکھوں میں دیکھتی ڈر سی گئی جو خون چھلکا رہیں تھیں ۔۔۔۔ وہ گبھرا کر سیدھی ہونے لگی کہ ایک دم درید نے اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا کہ وہ سیدھی اس کے پہلو میں جا گری۔۔۔وہ ایک بازو اُس کے پہلو میں رکھتا اُس پہ جھک سا گیا۔۔۔۔۔ ساوی کس کی ہے؟؟؟ سوال ہوا۔ دد درید احمد کی۔۔۔۔ جواب آیا۔۔ ساوی درید کی کیا ہے؟؟ ایک اور سوال ہوا۔۔ سس ساوی دد رید کی زز زندگی ہے۔۔۔ ہکلاتے ہوئے جواب آیا۔ درید ساوی کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ پھر سے سوال ہوا۔۔ جج جان للے بھی سس سکتا ہے جج جان دد دے بھی سس سکتا ہے۔۔۔۔۔ لرزتے ہونٹوں سے جواب ادا ہوا۔۔۔ ساوی کے نام کے آگے کس کا نام جُڑے گا؟؟؟ سوال جھٹ سے آیا۔۔۔ دد درید احمد کا۔۔۔۔ جواب بھی اسی سپیڈ سے ملا۔۔۔ درید کو ساوی نہ ملی تو کیا ہو گا؟؟؟ وہ جاننا چاہ رہا تھا۔۔۔ دد درید مم مر جا ئے گگ گا۔۔۔۔۔ آنکھیں میچی گئیں۔۔۔۔ میں سچ میں مر جاوں گا۔۔۔ میں سچ کہہ رہا ہوں اگر تم کسی اور کی ہوئی نہ تو میں مر جاوں گا ۔۔۔۔۔ وہ بے بسی سے اسے اپنے حصار میں قید کرتا ہوا بولا مم میں آپ کی ہوں صرف آپ کی کیوں سوچ رہے ہیں ایسا کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ وہ اس کی سانسیں اپنی گردن پہ محسوس کرتی پوچھ رہی تھی۔۔۔ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے مم میں ہوں نہ سب ٹھیک کر دوں گا بسس تم میرا ساتھ دینا ۔۔۔۔ دو گی نہ میرا ساتھ؟؟؟ وہ اس کان میں سرگوشی کی مانند بولتا تصدیق چاہ رہا تھا ۔۔۔ ہہ ہاں میں ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گی ہمیشہ ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں خوف محسوس کرتی اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر بولی ۔۔۔۔ پھر جب چچی ماں تمہارے پاس آئیں کسی رشتے کی رضامندی پوچھنے تو انکار کردینا ان سے کہہ دینا تم کسی سے شادی نہیں کرو گی۔۔۔۔۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔۔ مم میرا رشتہ کک کس سے ؟؟؟ وہ الجھے لہجے میں بولی۔۔ مجھے نہیں پتہ تم بس انکار کر دینا ساوی تم مجھ سے محبت کرتی ہو کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی مت ۔۔۔۔۔ تم کرتی ہو نہ مجھ سے محبت؟؟؟ وہ اسے کندھوں سے دبوچتا جنونی لہجے میں پوچھا رہا تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں جنون دیکھتی وہ کچھ بول نہ پائی تو اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔ میں جانتا تھا میری چڑیا میری گُڑیا صرف مجھے چاہتی ہے تھینکیو تھینکیو سو مچ میں آج بہت خوش ہوں بہت خوش ۔۔۔۔ وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامتا اس کے چہرے کے ہر نقش کو چومتادیوانہ وار بولا کہ ساوی اس کی شدت پہ دنگ رہی گئی۔۔ دد درید پپ پلیز چچ چھوڑیں مجھے۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتی ناراض لہجے میں بولی۔۔۔۔ کیا ہوا تم ناراض ہو مجھے سے ؟؟؟ وہ الجھا۔۔۔ اابھی شش شادی نہیں ہوئی ہماری۔۔۔۔ وہ جھجھکتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔۔۔ ہاں تو ہوجائے گی نا اب ۔۔۔۔وہ ایک بار پھر اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتا بولا کہ وہ اپنا رخ موڑ گئی۔۔ تت تو آآپپ آپ پلیز ایسے مت کک کریں ۔۔۔ وہ رخ موڑے ہی اٹکتے ہوئے بولی۔۔ کیسے نہ کروں؟؟؟؟ وہ الجھن سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔ یہ یہ جو آپ کک کر رہے ہیں ۔۔۔۔وہ اپنے چہرے کی طرف اشارہ کرتے بولی درید کچھ پل اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھتا رہا پھر جب بات سمجھ میں آئی تو زندگی سے بھرپور قہقہہ لگا اُٹھا۔۔۔۔۔۔ ابھی نہ کروں شادی کے بعد کرلوں ؟؟؟ وہ شرارت سے پوچھ رہا تھا۔۔ درید پلیزز۔۔۔۔۔۔وہ اس کی بات پہ شرم سے سرخ ہوتی چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی اور وہ اس کی اس ادا پہ نہال ہوتا اس پہ پھر سے جھک گیا اس کے ہاتھ ہٹاتا وہ اس کی پیشانی پہ محبت بھرا لمس چھوڑگیا اور وہ اس کی قربت میں لرزتی رہ گئی۔۔۔ اچھا ایک بات تو بتاو؟؟ اب کی بار اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جج جی۔۔ وہ سرجھکائے ہی بولی۔۔۔ آج رات میرے کمرے میں گزارنی ہے؟؟ وہ لہجے میں سنجیدگی اور آنکھوں میں شرارت لیے پوچھ رہا تھا۔۔۔ اس کی بات پہ ساوی نے جھٹ سے سر اُٹھایا اور وال کلاک کی طرف دیکھا جو دس بجا رہی تھی۔۔۔۔ نن نہیں مم میں جا رہی ہوں۔۔۔۔ وہ نروس ہوتی بولی۔ ویسے اگر یہاں بھی رہ لو گی تو بھی کوئی بات نہیں آفٹر آل یہ بھی تمہارا ہی کمرہ ہے مستقبل کا ۔۔۔ وہ اس کے چہرے پہ نظریں جمائے پُرشوق لہجے میں بولا۔۔ جی یہ بھی میرا ہی کمرہ ہے مگر یہاں میں اسی دن رہنےآوں گی جس دن اپنے ساے حقوق آپ کے نام کر دوں گی آپ کی دلہن بن کر۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی درید کی بات سن کر پلٹ کر بولتی جھٹ سے باہر نکل گئی۔۔۔۔ اور درید اس کی بات پہ پہلے حیران ہوا پھر مسکرا اٹھا اور اس کے بارے میں سوچتے سوچتے بستر پہ دراز ہو گیا۔۔۔۔۔۔ جبکہ ساوی جو چائے لائی تھی وہ میز پہ پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شادی میں چھ دن رہ گئے تھے اور ابھی ساری تیاری رہتی تھی مراد صاحب اور درید آفس جاچکے تھے جبکہ شایان کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد ہی آفس جوائن کرے گا ۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم اور افرحہ لاونج میں بیٹھے شایان کا انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ آئے اور وہ لوگ شاپنگ کے لیے جائیں ساوی نے جانے سے انکار کر دیا تھا درید نے اسے کہا تھا کہ وہ خود اسے شاپنگ کروائے گا۔۔۔۔۔۔۔ دروازے پہ بیل ہوئی تو ساوی نے جا کر دروازہ کھولا آگے ان کی ملازمہ کھڑی تھی جس کے ایک ہاتھ میں بیگ تھا اور ایک ہاتھ میں اس نے اہنے تین سالہ بیٹے کا ہاتھ تھام رکھا تھا جو کہ اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹا کھڑا تھا۔۔۔۔ بڑی جلدی آگئی آپ۔۔۔۔ ایک ہفتہ اور رہ آتیں ۔۔۔۔ساوی نے امرین (ملازمہ) کو گھورتے ہوئے کہا جس پہ آگے سے وہ دانت دکھاتی ہنسنے لگی ساوی نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ تو وہ چلتی ہوئی لاونج میں نادیہ بیگم کے پاس ہی کھڑی ہو کے سلام دعا کرنے لگی۔۔۔ تم نے توکہا تھا کہ ایک ہفتے میں واپس آجاو گی اوپر سے مہینہ ہونے کو آیا ہے اب آ رہی ہو۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے اپنی پوچھ گُچھ شروع کی۔۔۔ جی بیگم صاحبہ وہ اماں کی طبیعت خراب ہو گئی تو ان کے پاس ہی رک گئی تھی۔۔۔۔۔۔ امرین نے اپنی صفائی پیش کی۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ اس سے ملو یہ افرحہ ہے اس گھر کی ہونے والی بہو اور شایان کی ہونے والی بیوی۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے افرحہ کا تعارف کرایا ۔۔۔ بی بی تو بہت خوبصورت ہے جی ۔۔۔ صاحب کے ساتھ بہت اچھی لگیں گی .۔۔۔۔۔۔۔۔ افرحہ کو دیکھتی امرین خوشی سے بولی۔۔۔ ہاں اور اب میری بات سنو ۔۔۔میں اور افرحہ شایان کے ساتھ شاپنگ پہ جا رہے ہیں اور ساوی گھر پر ہی ہے دھیان رکھنا اور لنچ کی تیاری کر لینا ٹھیک ہے۔۔۔ نادیہ بیگم نے اسے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جی بیگم صاحبہ ٹھیک ہے ۔۔۔وہ اثبات میں سر ہلاتے بولی۔۔۔ ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں چلو افرحہ۔۔۔۔ وہ شایان کو آتا دیکھ کر بولیں اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔۔ شایان امرین کے سلام کا جواب دیتا ان کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا سنو امرین !!! میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں کوئی بھی بات ہو تو مجھے بتا دینا۔۔۔۔۔وہ اسے ہدایت کرتی کمرے میں چلی گئی اس کا ارادہ شاور لینے کا تھا۔۔۔۔ ساوی کے جانے کے بعد امرین اٹھی اور گھر کے پیچھے بنے کوارٹر میں بیگ رکھ کر واپس آگئی اور کچن میں جا کے لنچ کی تیاری کرنے لگی جب کی اس کا بیٹا لان میں کھیلنے چلا گیا ۔۔۔۔ اچانک ڈور بیل کی آواز پہ وہ باہر آئی اور دروازہ کھولا۔۔۔ ارے اشعر صاحب آپ اسلامُ علیکم ۔۔۔۔وہ اشعر کو دیکھ کے سلام کرتی بولی۔ اشعر اس کے سلام کا جواب دیتا اندر آگیا اور گھر والوں کا پوچھا۔۔۔۔ جی بیگم صاحبہ تو شایان صاحب اور افرحہ بی بی کے ساتھ شاپنگ پر گئی ہیں اور درید صاحب اور مراد صاحب تو جی آفس میں ہیں اور گھر پر صرف ساوی بی بی ہیں۔۔۔۔۔۔امرین نے تفصیل سے بتایا تو اشعر کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔۔۔۔ اوہ اچھا چلو ساوی سے مل لیتا ہوں کدھر ہے وہ؟؟ اس نے ساوی کے بارے میں پوچھا۔ جی وہ اپنے کمرے میں ہیں آپ بیٹھیں میں بلا کر لاتی ہوں۔۔۔۔ وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتی ساوی کے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔۔ نہیں رہنے دو میں خود جا کے مل لیتا ہوں۔۔۔۔۔اس کے کہنے پہ ملازمہ کندھے اچکاتی کچن میں چلی گئی۔۔۔۔۔ وہ ساوی کے روم میں داخل ہوا تو روم میں کوئی نہیں تھا باتھ روم سے پانی کی آواز آرہی تھی مطلب ساوی باتھ روم میں تھی۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے بیڈ پر جا کے بیٹھ گیا اور اس کا فون اُٹھا کے دیکھنے لگا فون پہ کوئی پاسورڈ نہیں لگا تھا۔۔۔اس نے گیلری اوپن کی تو وہاں لاتعداد پکچرز تھیں جو زیادہ تر ساوی اور درید کی تھیں۔۔۔۔ ہر پکچر میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش نظر آرہے تھے آئسکریم کھاتے ہوئے، شاپنگ کرتے ہوئے، ساحل سمندر پر، برتھڈے پارٹیز کی بہت ساری پکچرز تھیں جس میں درید اور ساوی کی پکچرز تھی پہلی نظر دیکھتے ہی ایسا لگتا جیسے وہ کوئی کپل ہوں جسٹ میڈ فار ایچ ادر۔۔۔۔۔۔ انہیں ایک دوسرے کے اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھیں جلنے لگیں۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ اور چیک کرتا کہ درید کی کال آنے لگی۔۔۔۔اس نے کال پک کر لی۔۔۔۔ کہاں تھی یار پہلے بھی کالز کیں ہیں تب بھی نہیں اٹھا رہی تھیں کہاں بزی تھی؟؟؟ وہ بے تابی سے پوچھ رہا تھا۔۔۔ ریلیکس یار چل کرو کیا ہو گیا اگر ساوی نے تمہاری کالز پک نہیں کیں تو۔۔۔۔ وہ دراصل ساوی میرے ساتھ بزی تھی گھر پر کوئی نہیں تھا تو میں اسے کمپنی دینے آگیا اور میری کمپنی میں اسے پتہ ہی نہیں چلا تمہاری کالز کا ۔۔۔۔۔۔اشعر نے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا بکواس کر رہے ہو تم گھٹیا انسان ؟؟ ساوی کہاں ہے اور اس کا فون تمہارے پاس کیا کر رہا ہے ؟؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کے فون کو چھونے کی؟؟ درید غصے سے بھڑکتا ہوا بولا۔۔۔ بکواس نہیں کر رہا میں۔۔۔۔۔اور رہی بات ساوی کی تو وہ بہت تھک گئی تھی مجھ سے باتیں کر کر کے تو ابھی شاور لینے گئی ہے۔۔۔۔ اور اس کے فون کو چھونے کا حق ہے میرے پاس نہ صرف فون کو چھونے کا بلکہ ساوی کو۔۔۔۔۔۔ وہ درید کے غصہ انجوائے کر رہا تھا کہ درید نے ایکدم اس کی بات کاٹی۔۔۔ بکواس بند کرو اپنی ورنہ بکواس کرنے کے لائق نہیں چھوڑوں گا تمہیں میں۔۔۔۔۔۔۔درید اپنا اشتعال ضبط کرتے گویا ہوا۔۔۔۔ ہاہاہاہا یار کیا ہو گیا ہے؟؟ تمہیں کیوں اتنی مرچیں لگ رہی ہیں ؟؟ میں اپنی ہونے والی بیوی کے بارے میں بات کر رہا ہوں تمہیں کیا تکلیف ہے؟؟؟ اشعر نے چھبتے ہوئے لہجے میں کہا اور ایک نظر باتھ روم کیطرف دیکھا کہ ساوی نہ آجائے۔۔۔ اشعر کی بات سن کر درید کے دل میں چھن سے کُچھ ٹوٹا تھا اس کا مطلب چچی ماں نے اشعر کے ساتھ ساوی کا رشتہ جوڑا ہے مطلب اشعر کی ساری باتیں سچ تھیں چچی ماں نے مجھ پر اشعر کو فوقیت دی ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔۔۔ایک دکھ تھا جو اس کے سینے کو چھلنی کر رہا تھا ایک چھبن تھی جو نادیہ بیگم کے اس فیصلے سے اس کے دل کو ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ چل اب فون رکھ دے یار میری مسز ٹو بی آتی ہی ہوگی۔۔۔ اب ہماری پرسنل باتوں میں تمہارا کیا کام؟؟ وہ کہتا کمینے پن سے قہقہہ لگاتا فون کاٹ گیا۔۔۔ اشعر نے فون بند کیا اور اس کا فون واپس اسی جگہ پہ رکھتا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔ اور درید فون کو زور سے دیوار پر مارتا کوٹ اُٹھاتا گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔


   0
0 Comments